4 اگست 2025 - 22:59
غزہ جنگ کے دھندلکے میں دریائے اردن کے مغربی کنارے پر صہیونیوں کا بتدریج قبضہ

جب کہ توجہ غزہ پر مرکوز ہے، اسرائیلی ریاست مغربی کنارے میں ایک آہستہ اور رینگتی ہوئی منصوبہ بندی کو آگے بڑھا رہی ہے۔ امت مسلمہ مختلف تصورات کے پیچھے چھپ کر تاریخ کی بدترین حسی سے گذر رہی ہے، کچھ مسلم اور عرب ممالک اعلانیہ یا غیر اعلانیہ صہیونیوں کی صف میں کھڑے ہیں، مغرب سمجھتا ہے کہ اسرائیل تمام تر گندے کام مغربی دنیا کے لئے کر رہا ہے، اور صہیونی اپنا کام انتہائی بے دردی سے آگے بڑھا رہے ہیں!

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ  کے مطابق، گذشتہ ہفتوں میں صہیونی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے مغربی کنارے پر "حکمرانی کے نفاذ" کے متعلق ایک علامتی لیکن اہم تجویز سے اتفاق کیا ہے۔ یہ اقدام اس خطے کے الحاق کے بارے میں وسیع تر بحث و جدل کا راستہ کرتا ہے اور فلسطینی علاقوں کے متعلق اسرائیلی پالیسی میں ایک طرز فکر کی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔

یہ تجویز اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ذیل نمائندوں نے جانب سے پیش کی تھی، جیسے:

  • سمحا روٹ مین (مذہبی صہیونیت)
  • اودد فورر (اسرائیل ہمارا گھر)
  • لیمور سون ہارملیک (یہودی طاقت)
  • دان ایلوز (لیکود)

غزہ جنگ کے دھندلکے میں دریائے اردن کے مغربی کنارے پر صہیونیوں کا بتدریج قبضہ

اور یہ تجویز 13 مخالف ووٹوں کے مقابلے میں  71 موافق ووٹوں کے ساتھ منظور کر لی گئی۔

دان ایلوز نے ووٹنگ کے بعد زور دے کر کہا کہ "یہودا اور سامرہ (مغربی کنارہ) سودے بازی کا موضوع نہیں ہیں۔ اب بس ہماری حکمرانی کا وقت آ گیا ہے۔"

گذشتہ جمعہ کو بھی اسرائیل کاٹز (وزیر جنگ) اور یاریو لیون (وزیر قانون) نے نیتن یاہو کی کابینہ کی جانب سے ایک مشترکہ بیان میں دعویٰ کیا کہ "اب یہودا اور سامرہ کے الحاق کا مناسب وقت ہے۔"

بیان میں کہا گیا: "ہم، یاریو لیون اور اسرائیل کاٹز، کئی سالوں سے یہودا اور سامرہ (مغربی کنارے کے توراتی نام) پر اسرائیلی حاکمیت کے نفاذ کے لئے کوشاں ہیں اور اب ایک تاریخی لمحہ ہاتھ آیا ہے جسے ہاتھ سے نہیں جانا چاہئے۔"


اسرائیل 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد سے فلسطینی علاقوں پر طویل المدتی قبضہ جما چکا ہے، جو جدید تاریخ کا سب سے طویل فوجی قبضہ سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ غزہ کی جنگ اور آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں، مغربی کنارے کو بھی بتدریج اسرائیل میں ضم کیا جا رہا ہے۔

تاریخی تناظر:

  • بیسویں صدی کے اوائل میں فلسطین کی 90% سے زائد آبادی عربوں کی تھی۔
  • آج بھی مغربی کنارے کی 85% آبادی عربوں کی ہے، جبکہ صرف 15% یہودی آباد ہیں۔
  • یہ آبادیاتی عدم توازن نیتن یاہو کی "خود مختار اسرائیل" کی پالیسی کو نسلی صفایا کی بنیاد پر استوار کرتا ہے۔

بین الاقوامی قانونی موقف:

  • اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عدالت انصاف اسرائیل کو قابض طاقت قرار دیتے ہیں۔
  • اسرائیل اس تعریف کو مسترد کرتے ہوئے مغربی کنارے کو "متنازعہ علاقہ" قرار دیتا ہے۔

ضم کرنے کی حکمت عملی:

  • وزیر خزانہ بزالل اسموتریچ نے کابینہ میں کلیدی عہدے سنبھال کر بتدریج ضم کرنے کا عمل تیز کیا۔
  • 2020  میں ٹرمپ انتظامیہ نے 85% مغربی کنارے کے ضم کرنے کی تجویز دی، جو انتہائی دائیں بازو کے لیے ناکافی تھی۔
  • انتظامی ڈھانچے میں تبدیلیوں کے ذریعے فوجی کنٹرول کو غیر فوجی اتھارٹی میں منتقل کیا گیا۔

مستقبل کے امکانات:

  • انتہائی دائیں بازو کا ہدف واضح ہے: مغربی کنارے اور غزہ کو "یہودا و سامرہ" اور "عزہ" کے ناموں سے ضم کرنا۔
  • یہودی آبادکاری کو فروغ دے کر فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
  • موجودہ حالات میں دو ریاستی حل کا تصور بے معنی ہو چکا ہے۔

اس تمام صورتحال میں بین الاقوامی برادری کی خاموشی اور اسرائیلی ریاست کی جانب سے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوششیں فلسطینیوں کے مستقبل کے لئے سنگین خطرہ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha